میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑی‘ سارا دن کوئی کام نہیں بس موبائل اور ٹی وی پر گانے سننا‘ فلمیں دیکھنا۔ نہ نماز‘ نہ قرآن‘ نہ اعمال کیونکہ بچپن میں نہ کبھی ماں باپ نے خود اعمال کیے اور نہ اولاد کو کہا۔ موبائل پر نامعلوم کتنے لڑکوں سے دوستیاں ہیں
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! میں آج عبقری قارئین کو ایک ایسا کربناک واقعہ سنانے جارہی ہوں جسے پڑھ کر یقیناً لوگوں کیلئے عبرت کا ساماں پیدا ہوگا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہماری گلی میں ایک سنار صاحب رہتے تھے‘ ان کا کام ٹھیک ٹھاک تھا‘ دکان اچھی خاصی چلتی تھی مگر نہ نماز‘ نہ روزہ‘ نہ تسبیح! ہروقت شیخی مارتے‘ لوگوں کو خوب دونوں ہاتھوں سے ’’لوٹتے‘‘ تھے۔ ماشاء اللہ شادی شدہ تھے اور پانچ بچوں جن میں چار بیٹیاں اورایک بیٹا تھا۔ نہ خود ساری عمر دین سیکھنے اور اس پر چلنے کی توفیق ہوئی اور نہ کبھی اپنی اولاد کو اس طرف لائے بلکہ اولاد کو نت نئے فیشن‘ موبائل‘ لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کنکشن سے نوازا۔ تین سال پہلے وفات پاگئے۔ یہ میرے قریبی عزیز ہیں۔ اب میں آتی ہوں ان کی جمع پونجی یعنی اولاد کی طرف‘ مرنے کے بعد ان کی اولاد کے حالات آج کل یہ ہیں۔
سب سے بڑی بیٹی شادی شدہ ہے‘ اس کے گھر کے حالات ایسے ہیں کہ لکھتے ہوئے بھی ہاتھ لرزتا ہے‘ کئی دفعہ اس کے سسرال والوں نے اسے گھر سے نکالا‘ ہائی سوسائٹی میں دھوم سے شادی ہوئی تھی‘ سال میں آٹھ ماہ ماں کے گھر رہتی ہے اور چار ماہ بمشکل اپنے شوہر کے پاس۔ دوسری بیٹی عمر 22 سال ہے تعلیم ایم اے‘ پچھلے چند سال سے ایک اپنے سے چار سال کم عمر لڑکے کے عشق میں گرفتار ہے جو کہ ابھی پڑھ رہا ہے‘ اس کے رشتے بہت آتے ہیں مگر اس لڑکے کی آس پر سب کو انکار کررہی ہے جس کی وجہ سے اس کی ماں سخت اذیت کا شکار ہے۔ اگر کوئی دوسرا رشتہ دیکھنے والا آئے تو خود ہی ان کو گھر سے بھگا دیتی ہے۔
تیسری بیٹی کی عمر صرف ابھی 19 سال ہے‘ میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑی‘ سارا دن کوئی کام نہیں بس موبائل اور ٹی وی پر گانے سننا‘ فلمیں دیکھنا۔ نہ نماز‘ نہ قرآن‘ نہ اعمال کیونکہ بچپن میں نہ کبھی ماں باپ نے خود اعمال کیے اور نہ اولاد کو کہا۔ موبائل پر نامعلوم کتنے لڑکوں سے دوستیاں ہیں اور آج کل خوب ’’موج‘‘ میں ہے۔ چوتھی بیٹی کی عمر 17 سال‘ انتہا کی خوبصورت‘ ہروقت ہاتھ میں دو موبائل‘ مڈل پاس‘ پڑھائی ختم‘ زبان بہت لمبی‘ ضد کی پکی‘ اپنی بات منوا کر دم لیتی ہے۔ محلے کےایک لڑکے کے عشق میں گرفتار ہے‘ سب کے سامنے العلان اس سے عشق کا دعویٰ کرتی ہے۔ وہ لڑکا گھر میں سب سے بڑا ہے اور اس کی چار بہنیں ہیں اس کے گھر والوں سے رشتہ کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ اس کی بہنوں کی شادی ہوگی پھر اس لڑکے کی ہوگی۔
اب آتی ہوں اس ’’سنیارے‘‘ کے بیٹے کی طرف‘ ماں باپ کا چہیتا‘ سنار کی دکان کرتا ہے‘ باپ کی طرح بہت شیخی مارتا ہے‘ خود کو امیر کبیر ظاہر کرتا ہے‘ روزانہ کا تقریباً دس ہزار عیاشی میں اڑاتا ہے‘ خوب کماتا اور خوب لٹاتا ہے‘ ماں بے حد پریشان ہے‘ حد سےزیادہ نافرمان ہے‘ فضول خرچ ہے‘ لڑکیوں کے چکر میں پڑا ہوا ہے‘ پچھلے دنوں تو اس نے خود اپنی ماں کو بتایا کہ یہ غلط عورتوں کے پاس رات کو جاتا ہے۔ آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔ تمام بچے اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ اب اس کی ماں اکثر میرے پاس آکر روتی ہے کہ اے کاش میں اپنے بچوں کو دنیا کی ساتھ ساتھ دین کی بھی کچھ تعلیم دیتی تو آج نہ ان کی یہ حالت ہوتی اورنہ میری۔ (شازیہ کلثوم‘ کراچی)
اُسے اعزاز کے ساتھ مرنا چاہیے
یہ ایک قانون قدرت ہے‘ اٹل حقیقت ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ اس وقت جتنے بھی زندہ انسان ہیں سب نے مرجانا ہے اور قبر میں منوں مٹی کے نیچے دب جانا ہے مگر انسان اس حقیقت کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ اگر تیار ہوتا ہے تو اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اس زندگی میں انسان کی اکڑ‘ تکبر‘ اپنے کو برتر اور دوسرےکو حقیر سمجھنے کی عادت ختم نہیں ہوتی۔ انسان اتنا غافل ہوجاتا ہے کہ مرنے کیلئے بھی ایسا طریقہ چاہتا ہے جو کہ اس کیلئے باعث اعزاز ہو اور مرنے پر بھی لوگ ایسی بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ جہاں ان کی امارت کی جھلک نظر آئے۔ ہاشمی صاحب نے واقعہ سنایا کہ ان کے والد سی ایم ایچ لاہور میں داخل تھے‘ وہاں ایک بہت بڑے عہدہ دار بھی داخل تھے‘ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق کینسر آخری مراحل میں تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ مریض چند دنوں کا مہمان ہے۔ اس کو گھر لے جائیں‘ ان کے اہل خانہ بضد تھے کہ نہیں موت ہسپتال میں ہونی چاہیے۔ یہی باتیں ہورہی تھیں کہ اس مریض کا داماد جو کہ بہت بڑا عہدہ دار تھا‘ وہ آگیا‘ اس کے سامنے مسئلہ رکھا گیا تھوڑی دیر بعد وہی داماد ڈاکٹر صاحب سے انتہائی اونچی آواز میں بات کررہا تھا اور لڑرہا تھا وہ بضد تھا کہ ہسپتال کا بہت اعلیٰ کمرہ کھول دیا جائے جو کہ صرف ملک کی ایک اہم شخصیت کیلئے مخصوص ہے تاکہ مریض کو اس کمرہ میں منتقل کردیا جائے تاکہ آخری وقت میں جو بھی عزیز و اقارب ملنے کیلئے آئیں تو وہ مرعوب ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مریض تو مررہا ہے لیکن اس کی موت اعزاز کے ساتھ ہونی چاہیے اور اس نے انگریزی کا ایک فقرہ استعمال کیا کہ He should die with dignity۔ سوچنے کا مقام ہے کہ آخرت کی کوئی فکر نہیں کہ قبر کا پرچہ کیسے حل ہوگا مگر یہ فکر ہے کہ موت اعزاز کے ساتھ ہو‘ کاش! ہم آخرت کیلئے بھی فکرمند ہوجائیں۔ (سید واجد حسین بخاری‘ احمدپور شرقیہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں